ہماری سماجی زندگی میں خرابیوں کی وجوہات کا جائزہ:




آج کے دور کے بشر کی سماجی زندگی کا جائزہ تب ہی لیا جاسکتا ہے جب اُسکی ذاتیات سے جُڑی زندگی کا کُچھ عِلم ہو۔

موضوع اسائنمنٹ سماجی زندگی نے مُجھے شش و پنج کا شکار کردیا ہے.  ایک عام ذی نفس اِس موضوع کے حساب سے سماجی زندگی کا جائزہ کیسے لے جب اُس کے اِرد گِرد کوئ سماج ہی موجود نہ ہو۔ سماجی زندگی میں خرابیوں کا جائزہ کیسے لیا جائے جب پورا آوا ہی بِگڑا ہوا ہو۔ جب ایک چیز سِرے سے ہی دُرست سِمت میں نہ ہو تو کیسے اُسکا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔


اگر ہم اپنے اِرد گِرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو ہر شخص ہمیں ایک عجیب کیفیت میں کھویا ہوا مِلے گا۔ ہمارے مُلک پاکستان میں ہر شخص مہنگائ اور بے روز گاری کا مارا ہے

جیسا کہ رسولِ کائینات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ غُربت انسان کو کفر تَک لے جاتی ہے یہ حدیث ہمارے موجودہ پاکستان کے ماحول کی مکمل عکاسی کرتی ہے جہاں لوگ غُربت اور بے روزگاری کے باعث چوری چکاری جیسے عمل میں ملوث پائے جاتے ہیں تو کہیں گھریلو جھگڑے شوہر بیوی کی نونک جھونک مالک مکان کے کرائےدار سے جھگڑے ایک دفتر میں کام کر رہے ملازم کی اپنے افسر سے ڈانٹ ڈپٹ یہ سب عمل انتہائ عام ہوتے جارہے ہیں۔


موجودہ معاشرے کے لوگ بدترین قسم کے سماجی دباؤ کا شکار ہیں جس نے لوگوں کی نفسیات کو بھی بُری طرح سے مُتاثر کیا ہے اور جس کے باعِث لوگ خودکُشی تک کرنے پہ مجبور ہیں۔

نہ صِرف پاکستان بلکہ دنیا ترقی یافتہ ممالک امریکہ، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک کے لوگ بھی سماجی زندگی میں بدترین خرابیوں کا شکار ہیں۔


ان خرابیوں کی اگر غور کیا جائے تو لاتعداد وجوہات ہیں۔

بڑھتی آبادی نے دنیا کے لوگوں کو اپنا پیٹ بھرنے کی بھاگ دوڑ میں لگادیا ہے اور بڑھتی آباد کے ساتھ وسائل کی کمی نے ملازمت کے مواقعوں میں بے حد تنگی کردی ہے جِس کے باعث اِس دُنیا میں زندہ رہنے کی بھاگ دوڑ نے موجودہ اِنسان کو انسانیت کے شرف سے حیوانیت تک پہنچادیا ہے۔ نفسا نفسی کے اِس دور میں اگر سڑک پر کسی شخص کو کوئ حادثہ پیش آجائے تو لوگ اُس کی طرف دیکھے بغیر برابر سے گُزر جائینگے بجائے کہ اُس کی مدد کریں۔


موجودہ دور نے انسان کو اپنے خونی رشتوں تک سے دور کردیا ہے اور آج کے دور میں بھائ بھائ سے جائیداد کے معاملات پہ لڑتا نظر آتا ہے۔ باپ کی میت کو قبر میں اُتارے لمحے نہیں گزرتے کہ بھائ آپس میں باپ کی جائیداد کے حصے کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔

موجودہ دور کے انسان کی نظروں میں پیسہ زندگی میں ہر چیز سے بڑھ کر ہوتا جارہا ہے کیونکہ پیسہ ہی آج کے دور کے معاشرے میں زندہ رہنے کا واحد حل بن چکا ہے۔ پیسے کی خاطر ایک شخص دوسرے کا قتل تک کرسکتا ہے۔

موجودہ دور کی سماجی خرابیاں اس وجہ سے بھی مزید پروان چڑہیں کہ اِنہیں ٹھیک کرنے کے لیے کسی نے اپنا قدم آگے نہ بڑھایا بلکہ ہر شخص اِس گُتھی میں ہاتھ ڈالنے سے باز رہا۔

عام طور پر معاشرے میں پائ جانے والی زیادہ طر خرابیوں کی وجہ مقامی ریاست ہوتی ہے کیونکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرے تاکہ سماج میں فساد اور انتشار پھیلنے کی نوبت نہ آئے۔ اور جب ریاست اس فرل میں ناکام ہوجاتی ہے تو ریاست میں ہر جانب محشر کا عالم برپا ہوجاتا ہے، لوگوں میں سے انسانیت ختم ہوجاتی ہے اور بھائ بھائ کا دشمن بن جاتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ زکٰوۃ ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہے کیونکہ زکوٰۃ ریاست میں امیر غریب کی تفریق کو ختم کرتی ہے اور صاحب استطاعت لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ نکال لر غریبوں کو دیتے ہیں تو اس سے معاشرے میں بدحلی ختم ہوتی ہے اور خوشحالی آتی ہے جبکہ آج کے دور میں امیر امیر ترین ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب ترین جسکے باعث سماج میں بدترین خرابیوں نے سر اُٹھالیا ہے۔

دین اِسلام نے ریاستی امور کو سنبھالنے کا جو طرہقہ کا دیا ہے۔ جس پر عمل کرکے سیدنا عمر فاروق اعظم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی نے بہترین ریاستیں قائم کیں افسوس کے مسلم دُنیا سے وہ تمام امور ناپید ہوچکے ہیں اور آج مغربی ممالک اُن امور پر عمل کرکے اپنی اقوام کی سماجی خرابیوں سے حفاظت کر رہی ہیں۔


یہ تو دین اسلام کے جُز پر عمل نہ کرنے کا انجام ہے۔ یہاں تو نہ جانے کس کس جُز کی نافرمانی ہے جس کے باعث موجودہ سماج غیر معمولی خرابیوں کا شکار ہے۔

اگر دین اسلام کی تعلیمات پر صدق دل کے ساتھ عمل کیا جائے تو ریاستی اُمور کو ایک دفعہ پھر سے سُدھارا جاسکتا ہے۔ اور جب ریاستی اُمور سدھر جائینگے تو سماج میں پنپنتی خرابیاں بھی جڑ سے ختم ہوجائینگیں۔ اور موجودہ انسان میں ایک دفعہ پھر اشرف المخلوقات کا مادہ نکھرنے لگے کا۔

Comments